پاکستان تحریکِ انصاف کے سینیئر نائب صدر اور عمران خان کی وکلا ٹیم کا حصہ شیر افضل مروت کی گذشتہ روز لاہور میں ہونے والی گرفتاری کے بعد سے سوشل میڈیا پر ان کی رہائی کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔
گذشتہ روز مبینہ طور پر لاہور پولیس نے شیر افضل مروت کو ’نقضِ امن کا باعث بننے پر‘ تین ایم پی او کے تحت لاہور ہائی کورٹ کے باہر سے گرفتار کیا تھا۔
اس گرفتاری کو چیلنج کرتے ہوئے شیر افضل کے بھائی خالد لطیف خان نے وکیل سردار لطیف کھوسہ کے ذریعے لاہور ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی تھی جس کے بعد فریقین کو نوٹس جاری کر دیے گئے ہیں۔
یاد رہے کہ شیر افضل مروت پر سوشل میڈیا کے ذریعے ریاستی اداروں کے خلاف عوام کو اکسانے کے الزام میں رواں سال اکتوبر میں بھی مقدمہ درج کیا گیا تھا۔
تاہم ان کی گرفتاری کے بعد سوشل میڈیا پر سامنے آنے والا ردِعمل دیکھتے ہوئے یہ بات خاصی حیرت انگیز ہے کہ ایک ایسے رہنما جو نو مئی سے قبل پی ٹی آئی کے اہم رہنماؤں میں شامل نہیں تھے، گذشتہ چند ماہ میں اچانک پی ٹی آئی کا چہرہ کیسے بن گئے؟
شیر افضل مروت کے بارے میں مقبول رائے یہ ہے کہ انھوں نے عمران خان کی گرفتاری کے بعد جماعت کو متحرک کرنے اور ورکز کنونشن میں بڑی تعداد میں لوگوں کو فعال کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔
گذشتہ ہفتے بھی شیر افضل مروت کی جانب سے یہ دعویٰ کیا گیا تھا کہ خیبر پختونخوا کے علاقے لوئر دیر میں انھیں چکدرہ بائی پاس پر گرفتار کیا گیا تھا تاہم لوئر دیر پولیس نے اس دعوے کی تردید کی تھی۔
انھوں نے حالیہ کچھ دنوں میں نوشہرہ، دیر، باجوڑ اور کوہاٹ میں ایسے ورکرز کنونشن سے خطاب کیا ہے جن میں رکاوٹوں کے باوجود لوگوں کی ایک بڑی تعداد نے حصہ لیا۔
شیر افضل مروت نے پی ٹی آئی میں شمولیت سنہ 2017 میں اختیار کی تھی اور اس کے بعد سال 2018 میں انتخابات میں انھوں نے لکی مروت کی سطح پر پی ٹی آئی کے امیدواروں کی حمایت اور ان کے لیے انتخابی مہم میں اہم کردار بھی ادا کیا تھا تاہم تب تک انھیں مرکزی سطح پر کوئی بڑا عہدہ نہیں ملا تھا۔
ہم نے ان کے بھائی اور دیگر تجزیہ کاروں سے بات کر کے شیر افضل مروت کی شخصیت کے بارے میں جاننے کی کوشش کی ہے۔