Thursday, 28 December 2023

بنگلہ دیش کے الیکشن میں انڈیا کا متنازع کردار: ’میں شیخ حسینہ کا امیدوار ہوں، یعنی انڈیا کا

 




بنگلہ دیش میں انتخابات کا موسم قریب آتے ہی اس کے ایک پڑوسی کے کردار پر بحث شروع ہوگئی ہے۔ وہ ملک جس کے بالواسطہ یا بلاواسطہ کردار کا سب سے زیادہ چرچا ہے وہ کوئی اور نہیں بلکہ انڈیا ہے۔

بنگلہ دیش کی مختلف سیاسی پارٹیوں کی انتخابی مہم کے دوران ’انڈیا فیکٹر‘ کا ذکر ادھر ادھر کیا جاتا ہے۔ اسی طرح اس معاملے پر بھی کافی قیاس آرائیاں کی جا رہی ہیں کہ بنگلہ دیش کے انتخابات میں انڈیا کیا چاہتا ہے۔

اس بار کا الیکشن بھی اس سے

Saturday, 16 December 2023

52 برس بعد پاکستان اور بنگلہ دیش معیشت کے شعبے میں کس مقام پر کھڑے ہیں؟

 





: 14 
اگست 1947 کے دن برطانوی راج سے آزادی کے بعد پاکستان کے مغربی اور مشرقی حصوں نے آزادی کا سفر ایک ساتھ شروع کیا۔ تاہم دونوں حصوں کے درمیان اگلے 10-12 برس میں سماجی اور معاشی فرق بہت زیادہ بڑھ گیا۔

اس بارے میں جی ڈبلیو چوہدری اپنی تصنیف Last Days of United Pakistan میں لکھتے ہیں کہ ’1960 میں مغربی پاکستان کی فی کس آمدنی مشرقی پاکستان کے باسیوں کی فی کس آمدنی سے 32 فیصد زائد تھی اور اگلے 10 سال میں یہ فرق 81 فیصد تک چلا گیا۔‘ واضح رہے جی ڈبلیو چوہدری پاکستان میں جنرل یحییٰ خان کی حکومت میں وزیر تھے۔

16 
دسمبر 1971 کو جب مشرقی پاکستان بنگلہ دیش کی صورت میں معرض وجود میں آیا تو اس وقت پاکستان اور بنگلہ دیش کے معاشی اشاریوں میں بہت زیادہ فرق تھا جس میں ملک کی معاشی ترقی کی شرح نمو، ملکی معیشت کا حجم، فی کس آمدن، برآمدات وغیرہ شامل تھی۔ پاکستان کو اس وقت بنگلہ دیش پر کافی سبقت حاصل تھی۔

تاہم گذشتہ دو عشروں میں بنگلہ دیش میں ہونے والی اقتصادی ترقی کی وجہ سے آزادی کے 52 برس بعد بنگلہ دیش کے معاشی اشاریے پاکستان سے بہت زیادہ بہتر ہو چکے ہیں۔
بنگلہ دیش نے گذشتہ 52 برس میں معاشی شعبے میں پاکستان سے بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کر کے اپنی بیرونی تجارت کو جہاں ایک جانب بڑھایا تو دوسری جانب وہاں غربت کی شرح میں بھی کمی دیکھی گئی جبکہ خواتین کی معاشی شعبے میں ترقی پاکستان سے زیادہ ہے۔

پاکستان میں گذشتہ کئی سال سے سیاسی عدم استحکام اور دہشت گردی اور امن و امان کی خراب صورتحال کی وجہ سے ایک جانب صنعتی ترقی کا پہیہ تھم گیا تو دوسری جانب ملک نے بیرونی تجارت، جی ڈی پی گروتھ، فی کس آمدن اور غربت کے شعبے میں کوئی خاص کارکردگی نہیں دکھائی۔


Friday, 15 December 2023

شیر افضل مروت: سابق سول جج مشکل وقت میں پاکستان تحریکِ انصاف کا چہرہ کیسے بنے

 

 




پاکستان تحریکِ انصاف کے سینیئر نائب صدر اور عمران خان کی وکلا ٹیم کا حصہ شیر افضل مروت کی گذشتہ روز لاہور میں ہونے والی گرفتاری کے بعد سے سوشل میڈیا پر ان کی رہائی کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔

گذشتہ روز مبینہ طور پر لاہور پولیس نے شیر افضل مروت کو ’نقضِ امن کا باعث بننے پر‘ تین ایم پی او کے تحت لاہور ہائی کورٹ کے باہر سے گرفتار کیا تھا۔

اس گرفتاری کو چیلنج کرتے ہوئے شیر افضل کے بھائی خالد لطیف خان نے وکیل سردار لطیف کھوسہ کے ذریعے لاہور ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی تھی جس کے بعد فریقین کو نوٹس جاری کر دیے گئے ہیں۔

یاد رہے کہ شیر افضل مروت پر سوشل میڈیا کے ذریعے ریاستی اداروں کے خلاف عوام کو اکسانے کے الزام میں رواں سال اکتوبر میں بھی مقدمہ درج کیا گیا تھا۔

تاہم ان کی گرفتاری کے بعد سوشل میڈیا پر سامنے آنے والا ردِعمل دیکھتے ہوئے یہ بات خاصی حیرت انگیز ہے کہ ایک ایسے رہنما جو نو مئی سے قبل پی ٹی آئی کے اہم رہنماؤں میں شامل نہیں تھے، گذشتہ چند ماہ میں اچانک پی ٹی آئی کا چہرہ کیسے بن گئے؟

شیر افضل مروت کے بارے میں مقبول رائے یہ ہے کہ انھوں نے عمران خان کی گرفتاری کے بعد جماعت کو متحرک کرنے اور ورکز کنونشن میں بڑی تعداد میں لوگوں کو فعال کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔

گذشتہ ہفتے بھی شیر افضل مروت کی جانب سے یہ دعویٰ کیا گیا تھا کہ خیبر پختونخوا کے علاقے لوئر دیر میں انھیں چکدرہ بائی پاس پر گرفتار کیا گیا تھا تاہم لوئر دیر پولیس نے اس دعوے کی تردید کی تھی۔

انھوں نے حالیہ کچھ دنوں میں نوشہرہ، دیر، باجوڑ اور کوہاٹ میں ایسے ورکرز کنونشن سے خطاب کیا ہے جن میں رکاوٹوں کے باوجود لوگوں کی ایک بڑی تعداد نے حصہ لیا۔

شیر افضل مروت نے پی ٹی آئی میں شمولیت سنہ 2017 میں اختیار کی تھی اور اس کے بعد سال 2018 میں انتخابات میں انھوں نے لکی مروت کی سطح پر پی ٹی آئی کے امیدواروں کی حمایت اور ان کے لیے انتخابی مہم میں اہم کردار بھی ادا کیا تھا تاہم تب تک انھیں مرکزی سطح پر کوئی بڑا عہدہ نہیں ملا تھا۔

ہم نے ان کے بھائی اور دیگر تجزیہ کاروں سے بات کر کے شیر افضل مروت کی شخصیت کے بارے میں جاننے کی کوشش کی ہے۔